Mittwoch, 13. Juli 2011

دوستی کا کمبل

دوستی کا کمبل
(سعید شباب)

جو دعا کرتے تھے الٹا ہی اثر ہوتا تھا
تیری چاہت کی دعا رب سے بچالی ہم نے

۔۔۔۔خانپورکی محدودادبی فضامیں میرے دوابتدائی دوست تھے، جمیل محسن اور اے کے ماجد۔۔ دونوں میرے ہم جماعت بھی رہے تھے۔ دونوں سے میری دوستی قائم رہی۔ جمیل محسن کے مجھ پر دو احسان ہیں۔ ایک احسان یہ کہ اس نے مجھے بزم فرید خانپورکے پلیٹ فارم سے اپنی ادبی زندگی کے آغاز کاموقعہ دیااور دوسرا احسان یہ کہ مجھے سعید شباب جیسے دوست سے متعارف کرایا۔

۔۔۔۔جمیل محسن کبھی کبھار’’اُس بازار‘‘ بھی چلاجایاکرتاتھا۔ اس کے ذریعے کئی اوٹ پٹانگ قسم کے دوستوں سے ملناپڑا۔ایسے ہی ایک نوجوان صراف سے بھی تعارف ہوا۔ ان دنوں گولڈن سنیما خانپور کے سامنے ایک سرکس شوہورہاتھا۔ اس صراف نوجوان نے مجھے سرکس چلنے کی دعوت دی۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی اکبرکو بھی ساتھ لے لیا۔ وہاں پہنچ کر اس دوست نے کسی بہانے ہمیں سرکس کی بجائے اس کے عین سامنے واقع بازار حسن کی سیر کرادی۔ میں ان دنوں مروّجہ اخلاقیات کاسخت پابند تھا جس کی وجہ سے حددرجہ کابزدل بھی تھا۔ اس بزدلی کوہمارے سماج نے خوامخواہ شرافت کانام دے رکھاہے۔ چند گلیاں گھومنے تک میں خوف اور شرمندگی کے باعث پسینے پسینے ہوچکاتھا۔ اکبرکم عمری کے باعث کچھ زیادہ جانتاتونہیں تھالیکن ہردروازے کو وہ پُراشتیاق نظروں سے لپک لپک کردیکھتاتھا۔ میرے خوف اور اصرار کے باعث ہم جلدہی وہاں سے نکل آئے۔ میں نے بعد میں جمیل محسن سے ناراضی کااظہارکیاکہ کیسے گندے دوست سے متعارف کرادیا۔ اس سیاحت کے نتیجہ میں آگے چل کر مجھے ایک بڑافائدہ اور ایک نقصان ہوا۔ فائدہ یہ ہواکہ جمیل محسن نے اس صراف کی دوستی کی خرابی کی تلافی کے لئے سعید شباب سے متعارف کرایا۔ اور نقصان یہ ہواکہ ایک عمرکے بعد جب اکبرکو میں نے اس کی بعض سرگرمیوں کی طرف توجہ دلائی تواس نے دوٹوک لفظوں میں کہاکہ مجھے اس بازار میں پہلی بارلے جانے والے آپ ہی تھے۔ تب مجھے پہلی باریہ دکھ ہواکہ میری زندگی اس قسم کے گناہوں سے محروم کیوں رہی۔ میری بزدلی نے شرافت کا نقاب اوڑھ کر مجھے کسی گناہ کانہ رکھا۔
۔۔۔۔سعیدشباب جب پہلی بار جمیل محسن کے ساتھ مجھے ملنے آیاتو جمیل کے بیشتر اوٹ پٹانگ دوست میرے ذہن میں تھے۔ چنانچہ میں نے ان سارے دوستوں کی برہمی سعید پر اتارنے کے لئے اسے جملوں کی زدپررکھ لیا۔ ایسے تندوتیزجملے تھے کہ سعید ان کی تاب نہ لاسکااور اٹھ بھاگا۔ میں نے اطمینان کاسانس لیا۔چند دن گزرے تھے کہ سعیدپھر آن ٹپکا۔اس بار میں نے جملوں میں مزید شدت پیداکی اور سعید ایک بارپھر اٹھ بھاگالیکن ہفتہ بھر کے بعد پھر آگیا۔ میں نے ابھی پہلا جملہ ہی چھوڑاتھاکہ سعید ہاتھ اٹھاکربولا: حیدر صاحب! میں نے آپ کو اچھی طرح سمجھ لیاہے۔ آپ جتنی جملہ بازی کرسکتے ہیں کرلیں لیکن اب میںیہ دوستی نہیں چھوڑوں گا۔۔ بس پھر سعید کی دوستی مجھ پر حاوی ہوتی چلی گئی۔ باقی سارے دوست اور ان کی دوستیاں دھندلاتی گئیں اور سعید کی دوستی واضح اور روشن ہوتی چلی گئی۔ پھر دوست ہی نہیں میرے بھائی بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے او ران کا بدل بھی سعید شباب بنتاچلاگیا۔ایک بار میں نے ایک چھوٹے بھائی کو کسی بات پر ڈانٹاتو اس نے ترکی بہ ترکی ایسا جواب دیاکہ پھر میں کسی بھائی کو کبھی کوئی نصیحت نہ کرسکالیکن سعید کومیں نے ایک دوبارکسی معمولی سی غلطی کی بناپرڈانٹاتو اس نے اس طرح سرجھکالیا جیسے کوئی چھوٹابھائی، باپ جیسے بڑے بھائی کی بے جا ڈانٹ کو سعادت سمجھ کر قبول کررہاہو۔
۔۔۔۔سعید نے خانپورکے ادبی ماحول میں میرابھرپورساتھ دیا۔میں ایک معمولی مزدورتھااورسعید بھی میرے جیساہی تھا۔ ہمارے مقابلے میں جو شعرائے کرام تھے ان میں کوئی پروفیسر تھا،کوئی بینکر، کوئی ایڈووکیٹ تھاتو کوئی کچھ اور، سماجی لحاظ سے ایسی معزز قسم کی چیزوں کے مقابلے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کے باوجود ہم نے جم کرمقابلہ کیا۔ مخالفین کی ساری سازشیں اور سیاستیں انہیں پر الٹ کرپڑیں۔ اگرچہ اس مقابلے میں بعض اور دوستوں نے بھی خلوص دل کے ساتھ ہمارا ساتھ دیالیکن یہ حقیقت ہے کہ سعیدباقی سارے دوستوں سے زیادہ فعال رہا۔ بینک والے شاعر دوست سے میری گہری دوستی تھی۔ دوسرے لوگ زیادہ تر اس لئے میرے مخالف ہوئے تھے کہ میں بینک والے دوست کا اتنا خیال کیوں رکھتاہوں لیکن پھر وہی بینک والا دوست دوسروں کے ساتھ مل کر میرے خلاف محاذ کھول بیٹھاتو مجھے سخت صدمہ پہنچا۔ میں دل گرفتہ بیٹھاتھا۔ سعید آگیا۔ میں نے اس سے اپنے دکھ کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔ میرے بات سن کر سعید نے فوراً کہاکہ اگر کُل گھر ہی سات ہوں تو کیا ڈائن بے چاری بھوکی مرجائے؟
۔۔۔۔جمیل محسن کے دادامحسن بریلوی اپنے زمانہ کے ریختی گوشاعرتھے۔جمیل نے شروع میں اپنے دادا کی نسبت سے اپنانام جمیل بریلوی رکھا۔ ایک بارسعیدنے جملہ کسا: الٹے بانس بریلی کو۔۔ والی بات جمیل بریلوی کے نام سے اب سمجھ میں آئی ہے۔۔ جمیل کا موقف یہ تھاکہ وہ اپنے داداکی نسبت قائم رکھناچاہتاہے۔ اس پر سعید نے اسے مشورہ دیاکہ بریلوی کے بجائے محسن کی نسبت اپنالو۔ چنانچہ پھر جمیل بریلوی نے اپنانام جمیل محسن رکھ لیا۔
۔۔۔۔ایک بار مسجد کے لئے چندہ وصول کرنے والے پیشہ ورقسم کے ایک مولوی صاحب میری داڑھی سے دھوکہ کھاکرمیرے سرہوگئے۔ میں نے انہیں سلیقے سے ٹالنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے ایک اینٹ کے بدلے میں جنت میں ایک گھرکی بشارت دے کرچندہ وصول کرنے کا تہیّہ کئے ہوئے تھے۔ تب سعید نے ان صاحب سے سنجیدگی کے ساتھ کہا: مولوی صاحب!آپ کس سے چندہ مانگ رہے ہیں۔ یہ بندہ تو خود یہی کاروبارکرتاہے۔ ان صاحب سے تو میری جان چھوٹ گئی لیکن مجھے پہلی باریہ احساس ہواکہ میری داڑھی نے میراحلیہ مسجدکے لئے چندہ جمع کرنے والوں جیسابنادیاہے۔
۔۔۔۔سعیدکوگلوکاری کاشوق ہے۔غزل کی گائیکی میں اس نے خاصی مہارت حاصل کی تھی۔ ایک ہارمونیم بھی خریدرکھاتھاایک بارسعید نے بتایاکہ اس نے موسیقی کی جو تھوڑی بہت تربیت حاصل کی ہے اس کے لئے مجبوراً خانپورکے ’’اُس بازار‘‘میں ہی جاناپڑتاتھااو ریہ کہ وہ اب بھی کبھی کبھار اُدھر چلاجاتاہے۔ چونکہ میں اس وقت تک مخصوص سماجی اخلاقیات کااسیر تھااس لئے میں نے سعید کوگناہ کے باب میں عذاب قبرسے لے کر جہنم تک ایک طویل لیکچردے ڈالا۔ ا س لیکچرکانتیجہ یہ ہواکہ سعید نے ہارمونیم بیچ دیااور’’اس بازار‘‘ میں جانے سے تائب ہوگیا۔کبھی دوستوں نے فرمائش کی تو میزکوبجاکرہی گاناسنادیا۔۔بعد میں ایک وقت آیاجب میرے دل میں کہیں اندردبی ہوئی خواہش نے سراٹھایا۔ اس کے لئے میں نے سعیدکے پرانے تجربات سے فائدہ اٹھانے کاسوچالیکن وہ اتنا سدھرچکاتھاکہ اس سے اس مو ضوع پر بات کرنابھی کمینگی محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ گناہ کی خواہش خود بخودحسرت میں تبدیل ہوکراندرہی اندر دم توڑگئی۔
ہمارے نامۂ عمل میں کچھ بھی تو نہیں ملا
کہ بے نصیب دل اسے سیاہ بھی نہ کرسکا
اب کبھی کبھی خود کوملامت کرلیتاہوں۔ کاش میں نے سعید کونیکی کالیکچر دے کرگمراہ نہ کیاہوتا۔سعید شباب سرائیکی کاز سے بے حد مخلص ہے۔ سرائیکی عوام کی سیاسی اور سماجی پسماندگی دورکرنے کی جدوجہد میں سعید شباب کے جذبات سے میں بخوبی آگاہ ہوں۔ تاہم سرائیکی سے اس کی محبت پنجابی یا اردو سے نفرت کی زائیدہ نہیں ہے۔اسے پاکستان کی ساری زبانوں سے محبت ہے۔ البتہ سرائیکی اس کی ماں بولی ہونے کے باعث اس کی پہلی محبت ہے۔ سعید نے سرائیکی میں بھی تھوڑابہت لکھاہے۔ ٹیلی ویژن کے سرائیکی ادبی پروگراموں میں شرکت کی ہے۔ اس کے باوجود اس کابنیادی ادبی کام اردو میں ہواہے۔کچی پکی غزلوں سے لے کر اچھی اچھی غزلیں کہنے تک سعید شباب نے اپنا سفر دھیمے دھیمے طے کیا۔ شہرت کے حصول کے لئے احمقانہ اور اوچھی حرکتیں کرنے کی بجائے اس نے خوب سے خوب ترکی جستجو جاری رکھی۔ اردوماہیانگاری کی جوروش پنجابی ماہیے کی روایت سے بے خبری کے باعث غلط طورپرپنپ رہی تھی اس کی نشاندہی کرنے اور اردو میں ماہیے کے اصل وزن کے نمونے پیش کرنے میں سعید نے بنیادی کرداراداکیاہے۔ مختلف ادبی جرائد میں ہونے والے ادبی ہنگاموں میں سعید نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مجھے اس وقت شدیدحیرت ہوئی جب بھارت کے ایک شاعر مظفر ایرج کادوسرا شعری مجموعہ چھپ کرآیا۔ اس میں اہم ادیبوں کے ساتھ سعید شباب کے تاثرات بھی چھپے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی حیرت کو چھپاتے ہوئے سعید سے پوچھابھائی! یہ فلیپ نگارقسم کی چیز کب سے بن گئے ہو؟۔۔ سعید کی جوابی مسکراہٹ ایسی لگی جیسے کہہ رہاہو آپ توگھر کے مرغے کو دال برابر ہی سمجھیں گے۔ تب ہی میں نے طے کیاکہ اپنے شعری مجموعہ ’’سلگتے خواب‘‘ اور افسانوی مجموعہ ’’روشنی کی بشارت‘‘ کے لئے سعید سے فلیپ کی رائے ضرور حاصل کروں گا۔ چنانچہ سعید نے دونوں کتابوں پراپنی رائے لکھی اور جی کھول کرلکھی۔ایسی رائے جسے پڑھ کر بعض کرم فرماؤں کاخون کھول اٹھااور میں جی ہی جی میں شرمندہ ہوتارہا۔
۔۔۔۔’’جدید ادب‘‘ خانپور کے چند آخری شماروں میں سعید بھی مجلس ادارت میں شامل تھا۔ اب اس نے نایاب پبلی کیشنزکے نام سے خانپور میں ایک ادبی اشاعتی ادارہ قائم کیاہے۔اس کا ارادہ ہے کہ ادب کے قارئین کو سچ مچ سستی قیمت پر ادبی کتابیں فراہم کی جائیں۔
۔۔۔۔سعیدنہایت وجیہہ نوجوان ہے۔حسن نظرکے ساتھ خوبصورتی کو پرکھنے کااعلیٰ ذوق رکھتاہے۔ پہلے اس کی شادی اپنی کزن سے ہوئی مگر بدقسمتی سے یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی۔دوسری شادی کے لئے میں نے بھی تھوڑی سی تگ ودوکی تھی۔ ملتان کی ایک فیملی کی لڑکی تھی۔سعید کی طرح وہ لوگ سرائیکی بھی تھے اور اعوان بھی۔ لڑکی اچھی تھی اور پڑھی لکھی تھی۔ میں اسے ذاتی طورپرجانتاتھا، سگھڑبچی تھی لیکن فرقہ کا اختلاف تھا۔ سعید نے کاغذی کاروائی کے طورپرفرقہ کی تبدیلی کے لئے بھی رضامندی ظاہرکردی لیکن جب اسے معلوم ہواکہ لڑکی میں قدرتی طوپرایک معمولی سانقص ہے تو اس نے میرے پاؤں پکڑلئے۔ میں نے کہا: قدرت کی طرف سے ملے ہوئے کسی عیب پر اعتراض کرنا ظلم ہے۔سعید نے اپنے دونوں کان پکڑکرکہاخدا کی قسم میں اس کے عیب پر اعتراض نہیں کررہا۔ میں نے کہا پھر شادی کرلو۔ ثواب ہوگا۔سعید نے کہامیں تو ویسے ہی بڑاگنہگار آدمی ہوں لیکن اس نیکی کے لئے مجھے مجبورنہ کریں۔ میں نے سوچاشاید فرقہ کی تبدیلی سے گھبرارہاہے لیکن سعیدکہنے لگابے شک مجھے سکھ بنوالیں مگر اس ثواب سے مجھے بچالیں۔ آخر مجھے اس کی حالتِ زارپر ترس آگیااور لڑکی والوں کو بہانہ بناکرجواب دے دیا۔ بعد میں سعید نے اپنے واقف کاروں میں ایک اچھی لڑکی شازیہ سے شادی کرلی۔اب دونوں بیوی اپنے بچوں سمیت ہنسی خوشی زندگی گزاررہے ہیں۔
۔۔۔۔سعید نے میرے ساتھ دوست اور بھائی کے دونوں رشتوں کو نبھایاہے۔ اس دوستی کی وجہ سے امی جی او رمبارکہ کاتعلق سعیدکی امی، بہنوں اور شازیہ بھابھی سے قائم ہوا۔ اباجی کو سعید نے ہمیشہ اپنے والد جیسا احترام دیا۔ باباجی سے اس کی گپ شپ زیادہ تھی۔ باباجی کو بھی سعید سے ایک خاص اُنسیت تھی۔میرے داداجی اور سعید کے والد خانپورکے ایک ہی قبرستان میں دفن ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سعید سے دوستی ہمارے بزرگوں کی قبروں سے لے کر ہماری اپنی قبروں تک قائم رہنے والی ہے۔ سعید نے میرے ساتھ بڑی دور تک دوستی نبھائی ہے۔ میں خانپور سے جغرافیائی طورپرجتنادور ہوتاگیاسعید کی دوستی مزید پکی ہوتی گئی۔
’’ازدیدہ دور از دل دور‘‘ والی بات سعید نے عملاً غلط ثابت کردی ہے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen