Mittwoch, 13. Juli 2011

مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ

مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ
تایاجی

نظر سے دور ہے لیکن نظر میں ہے پھر بھی
کہ عکس اپنے مرے  آئنوں   میں  چھوڑ گیا

اباجی کے بھائی۔۔ جنہیں ہم سب باباجی کہتے تھے، اباجی سے عمر میں بڑے تھے۔ اباجی نے زندگی ایک مقالہ نگار کی طرح بسر کی تو باباجی نے انشائیہ نگار کی طرح زندگی گزاری۔ وہ صراط مستقیم کی صداقت کے قائل تھے مگر ٹیڑھی میڑھی اور اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چلنا اور ارد گرد بکھرے ہوئے رنگوں اور خوشبوؤں سے لطف اٹھانا انہیں پسندتھا۔ باباجی نے بھرپور جوانی بسرکی۔ اباجی او رباباجی دونوں ایک دوسرے کے نیگیٹو تھے۔ اباجی کے مزاج کے برعکس باباجی خواتین کی محفلوں میں بیٹھ کر ہمیشہ خوش ہوتے۔ نماز کے قریب نہیں پھٹکتے تھے۔ کبھی زورلگاکر فجر کی نماز پڑھادی تو سارادن بہانے بنابناکرلڑتے۔ جمعہ کا دن آتا تو صبح سویرے ہی ان کی طبیعت خراب ہوجاتی اور عید کے موقعوں پر تو احتیاطاً ایک دن پہلے ہی بیمارہوجاتے۔ روزوں کا معاملہ بھی کچھ ایساہی تھا۔ ایک دفعہ میں نے انہیں کہا: ’’باباجی تین دن بعد رمضان شریف کے روزے شروع ہورہے ہیں ‘‘باباجی میری شرارت کو بھانپ گئے۔پورے اعتماد کے ساتھ بولے: ’’ہاں بھئی۔۔ اللہ کے نیک بندے روزے رکھیں گے۔ ہم تو بڑے گنہگار ہیں‘‘۔۔ ایک آدھ دفعہ انہیں مجبورکرکے روزہ رکھوادیاگیاتو عصرکے وقت ہی افطاری کے سارے لوازمات سجاکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعدبولے: ’’آج دن کی رفتار خاصی سست ہے‘‘۔ کسی نے مذاقاً کہہ دیا: ’’آج دن کو بھی پتہ ہے کہ باباجی نے روزہ رکھاہواہے اسی لئے سلوموشن میں چل رہاہے‘‘۔ باباجی کاپارہ چڑھ گیا۔ مؤذن کے بارے میں گرم ہونے لگ گئے وہ بھی کہیں سوگیاہے یا مرگیاہے۔ دراصل روزے کے معاملے میں باباجی غالب کے ہم خیال تھے ؂
روزہ مرا ایمان  ہے  غالبؔ لیکن
خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں
۔۔۔۔باباجی کے ’’خس خانہ وبرفاب‘‘ سے مراد ’’روزہ رکھنے کا حوصلہ‘‘ہے۔ اس کے باوجود باباجی خدا کی بے پایاں رحمت اور اپنے آقا حضرت محمدﷺکی شفاعت پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ سیدھے سادے مسلمان تھے۔ کبھی کبھی موج میں ہوتے تو کہتے: ہم خدا کی اپنی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ ہماری ساری غلطیاں اور گناہ وہ بخش دے گا۔ ویسے بھی کون ہے جو محض اپنی نیکیوں اور عبادتوں کے بل پر اپنی بخشش ہو جانے کادعویٰ کرتاہے۔ قوالی سننے کے رسیاتھے۔ عزیزمیاں اور صابری برادر ان کی قوالیاں سن کر باقاعدہ جھومنے لگتے۔
۔۔۔۔آزادہ روی باباجی کے مزاج میں بچپن سے ہی تھی۔ داداجی نے انہیں سکول میں داخل کرایا۔ پہلے دن ہی قاعدہ اور تختی کنویں میں پھینک آئے۔ داداجی نے تین دفعہ قاعدہ لے کر دیا۔۔ بابا جی تینوں دفعہ کنویں میں پھینک آئے۔ آخر داداجی نے حقائق کو تسلیم کرلیااور باباجی کو پڑھائی میں الجھانے کی کوشش ترک کردی۔
۔۔۔۔باباجی ہمارے اباجی سے عمر میں پندرہ سال بڑے تھے۔ اباجی جب پرائمری سکول میں پڑھنے جاتے تو واپسی پر ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سوجاتے۔ باباجی باقاعدگی سے اباجی کو گود میں اٹھاکر گھر لاتے۔ بڑے بھائی ہونے کے ناطے باباجی احترام کے لائق تھے مگر ہم نے جب سے ہوش سنبھالایہی دیکھا کہ باباجی ہمارے اباجی کا ایسے احترام کرتے جیسے سعادت مند چھوٹے بھائی اپنے بڑے بھائی کا احترام کرتے ہیں۔ اباجی جب پینتالیس سال کے تھے باباجی ساٹھ سال کے تھے۔ اباجی پچاس سال کے ہوئے باباجی ساٹھ سال کے رہے۔ اباجی چونسٹھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ باباجی پھر بھی ساٹھ سال سے آگے بڑھنے کو تیارنہ تھے۔ ہم نے منت سماجت کی تو بمشکل پینسٹھ سال کے ہوئے اور پھر جب بیاسی سال کی عمر میں فوت ہوئے تب بھی پینسٹھ سال کے تھے۔دراصل باباجی کو گزرتی ہوئی عمر کو روکنے کاہنر آتاتھا۔ مرتے دم تک باباجی نے ورزش کو ہی اپنی عبادت بنائے رکھا اور اس ورزش کی برکت سے بیاسی سال کی عمر تک بالکل ہشاش بشاش رہے۔
۔۔۔۔باباجی کو پہلوانی کاشوق تھا، خانپور کے علاقہ میں اپنے زمانے میں اچھے پہلوان مانے جاتے تھے۔ عمرڈھل گئی تو انہوں نے شاگردپالنے شروع کردیئے۔ کشتی کے داؤ پیچ سکھانے میں باباجی ماہر تھے۔’’استاد جی ‘‘کہلواکر خوش ہوتے۔جہاں بھی رہے اپنے شاگردوں کا حلقہ پیدا کیا۔جب وہ انہیں ’’استادجی‘‘ کہہ کر پکارتے تو بے حد خوش ہوتے۔ ہم پانچ بھائی ہیں اور پانچوں فری اسٹائل ریسلنگ دیکھنے کے شوقین ۔ ہم بھائی جب بھی اکٹھے ہوتے تھے ہماری اہم ترین مصروفیت ریسلنگ کی تازہ ترین فلمیں دیکھنا اور پرانی کشتیوں پر تبصرہ کرناہوتی تھی۔ ہم ہوگن، اینڈ ردی جائنٹ، میچومین، کمالا، رِک فلئیر، روڈی پائپر جیسے پہلوانوں کی باتیں کرتے توباباجی کو شدید غصہ آتا۔ فری اسٹائل کشتی کے فن کو صلواتیں سناتے اور پھر دیسی کشتی کے محاسن اور فضائل پر طویل لیکچر دے ڈالتے۔ باباجی بلب کے مقابلے میں تیل کے چراغ، فرج کے مقابلے میں گھڑے اور نئے دور کے مقابلے میں پرانی روایات کو ترجیح دیتے تھے۔ انہوں نے ہزار بحثوں کے بعد بھی زمانے کے ارتقاء کا اعتراف کرنے سے ہمیشہ انکارکیا۔
۔۔۔۔اباجی اور باباجی دو بھائی تھے۔ اس خاندان میں پچھلی کئی پشتوں سے یہ ہورہاتھاکہ دو بیٹے پیداہوتے، ایک اولاد سے محروم رہتا اور ایک کے ہاں پھر دو بیٹے ہوجاتے۔۔ چنانچہ باباجی بھی اولاد کی نعمت سے محروم رہے لیکن ان کی وفات کے ساتھ ہی ہمارے خاندان کی اس نسل درنسل روایت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ شروع شروع میں باباجی کو اولاد سے محرومی کا قلق رہاپھر پتہ نہیں انہوں نے قسمت کے لکھے سے سمجھوتہ کرلیایا انہیں اتنی بڑی کائنات میں انسان کی بے وقعتی کا احساس ہوگیاکیونکہ پھر انہوں نے زندگی سے مسرت کشید کرنے کا عمل تیزکردیا۔
۔۔۔۔باباجی کی آنکھ میں موتیا اترآیا۔ آپریشن ہوا، کامیاب رہامگر نظر مزید کمزور ہوگئی۔انہوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑدیا۔ ٹی وی دیکھنا چھوڑکر بھی باباجی کے ’’حُسنِ نظر‘‘ میں کمی نہیں آئی۔ جیسے ہی ملکۂ ترنم نور جہاں کا کوئی نغمہ سنائی دیتا، نغمہ سننے اور ملکہ ترنم کی زیارت کے لئے ٹی وی والے کمرے میں آجاتے۔ نورجہاں کا نغمہ بڑی محویت سے سنتے بلکہ بڑی محویت سے دیکھتے۔ ایک موقعہ پرتو عالمِ محویت میں ان کی عینک ہی گرگئی تھی۔۔ پھر یوں ہواکہ مسرت نذیر یکایک ٹی وی پر نمودا رہوگئی۔ بچوں نے اپنی عمر سے آگے بڑھ کر جوان ہونا شروع کردیا اور بوڑھوں نے ریورس گیئر میں جوان ہوناشروع کردیا۔ باباجی بھی مزید جوان ہوگئے۔ مسرت نذیر کے گائیکی کے انداز نے باباجی کی توجہ کھینچ لی تھی۔ اس کے باوجود باباجی نے ملکۂ ترنم نورجہاں سے تعلق خاطر کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ البتہ یہ تعلق کمزور ضرور پڑگیا۔ مثلاً ایک بقرعید پر ملکۂ ترنم کا نغمہ دکھایاگیا۔ باباجی محبت کا بھرم رکھنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے مگرٹی وی والے کمرے تک پہنچتے پہنچتے اتنی دیر ہوگئی کہ گانا ختم ہوگیااورباباجی الٹے پاؤں یوں لوٹ گئے جیسے ملکہ ترنم سے کہہ رہے ہوں ’’اچھا اگلی بقر عید پر سہی!‘‘۔
۔۔۔۔ہمارے بچپن میں باباجی ایک دفعہ مجھے اور آپی کو اپنے اکھاڑے میں لے گئے۔ ہم دوسری کشتیاں دیکھتے رہے لیکن جیسے ہی باباجی اکھاڑے میں اترے اور اپنے حریف سے پنجہ آزمائی کرنے لگے ہم نے یہ سمجھا کہ دوسرا آدمی ہمارے باباجی کومارے گا۔ چنانچہ ہم نے رونا اور چیخنا شروع کردیا۔ ہماری چیخ و پکار سے مجبورہوکر باباجی کو کشتی ادھوری چھوڑنا پڑی۔آکر ہمیں تسلّی دیتے رہے کہ میں اپنے حریف کو پچھاڑدوں گامگر ہم نے انہیں کشتی نہیں لڑنے دی۔
۔۔۔۔باباجی نے دوشادیاں کیں مگر دونوں ناکام ہوئیں۔ بواحیات خاتوں بتایاکرتی تھیں کہ پہلی بیوی کے ساتھ باباجی زیادتیاں کرتے تھے۔ باباجی اس الزام پر ہمیشہ برہم ہوجاتے۔ دوسری بیوی کا حال ہم نے خود دیکھا۔ اس نے ہمیشہ باباجی کے ساتھ زیادتی کی۔ باباجی جہاں تک برداشت کرسکتے تھے، کرتے رہے۔ جب قوت برداشت جواب دے گئی تو علیٰحدگی ہوگئی۔ ممکن ہے اولاد ہوتی تو باباجی کی قوّتِ برداشت بڑھ جاتی اور دونوں میں علیحدگی کی نوبت نہ آتی۔ باباجی کی بیویوں نے باباجی کا ساتھ نہیں دیاتھا یا باباجی اپنے ساتھ نہیں نبھاپائے، یہ خداہی بہتر جانتاہے۔ مگریہ ایک حقیقت ہے کہ باباجی نے اباجی کا زندگی بھر ساتھ دیا۔۔ بُرے وقتوں میں کام آئے، بھلے وقتوں میں کام آئے۔ ان کی جائیداد بے شک ان کی موت کے بعد ہمارے حصے میں ہی آتی مگر اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیدادبھائی، بھتیجوں کے سپرد کردینا بڑے حوصلے اور دل جگرے کاکام ہے۔ باباجی نے یہ کام کیا۔ ہمارے ساتھ نیکی کی احسان کیا۔ ا س کا اجرانہیں خدا سے ملے گا۔
۔۔۔۔میرے بچوں سے باباجی بہت مانوس تھے۔ رضوانہ، زلفی، شازی، ٹیپو، مانوپانچوں سے انہیں محبت تھی۔ باباجی کالی مرچ، سونف، مصری، بادام اور الائچی وغیرہ کا وافر اسٹاک اپنے پاس رکھتے اور انہیں عام طورپر استعمال کرتے رہتے۔ بچوں کو مصری اور بادام دیاکرتے تھے۔ محلے کے بچوں میں بھی مصری بانٹاکرتے تھے۔ چنانچہ محلے میں ’’مصری والے بابا‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
۔۔۔۔باباجی صاف دل اور سادہ مزاج انسان تھے۔ انہوں نے کبھی خود کو نیک اور متقی باور کرانے کی کوشش نہیں کی۔غصہ آتا تو پینے کی کوشش نہیں کرتے تھے، برملا اظہار کردیتے تھے۔ چنانچہ آخری پانچ برسوں میں مہینے میں ایک آدھ بار جھگڑا ضرور کرلیتے۔ دراصل اپنی صاف دلی اور سادہ مزاجی کے باعث ’’لائی لگ‘‘ تھے۔ جھگڑا اُس وقت کرتے جب بعض رشتہ دار انہیں بھڑکاتے۔ جب جھگڑاکرچکتے پھر خود ہی بتادیتے کہ مجھے فلاں فلاں نے اس طرح غصّہ دلایاتھا۔ چنانچہ ہم کسی عزیز سے تلخی پیدا کئے بغیر فساد پھیلانے والے رشتہ داروں سے واقف ہوگئے اور خود ہی محتاط رہنے لگے، مگر باباجی کا کمال یہ تھاکہ کچھ عرصہ ٹھنڈا رہنے کے بعد پھر انہیں رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے لگتے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے
۔۔۔۔باباجی کو مٹی سے بڑی محبت تھی۔ شروع شروع میں گھر کے کچے صحن میں آلتی پالتی مارکے بیٹھے رہتے۔ پھر گھر کے باہر بھی اسی طرح بیٹھنے لگے، بلکہ بعض دفعہ خاک پر نیم دراز ہوجاتے۔ میں نے ان سے ایک دوبارمؤدبانہ درخواست کی کہ اس طرح سرِراہ نہ بیٹھاکریں۔ ان کا جواب تھا مجھے مٹی سے محبت ہے، اس کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔۔ میں نے گذارش کی کہ صحن کی مٹی کی خوشبو سے ہی محبت پوری کرلیجئے مگر وہ توشاید ’’تمنا‘‘ کادوسرا قدم ڈھونڈنے کے چکر میں تھے۔ آخر میں نے انہیں اپنی اور ان کی قریشیت کا واسطہ دے کرکہا آپ جس طرح سرراہ مٹی سے اظہار محبت فرمارہے ہیں اس میں محبت کی بھی رسوائی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہیں راہ گیر آپ کے سامنے پیسے نہ ڈالنے شروع کردیں۔۔ میرا تِیر ٹھیک نشانے پر بیٹھااور باباجی لاحول ولاقوۃ پڑھتے ہوئے ایک دم چھلانگ مارکر کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد باباجی گھر کے صحن میں ہی مٹی سے اظہار محبت کرتے رہے۔
۔۔۔۔ دراصل باباجی کے اندر ایک بڑا مضبوط دراوڑ موجود تھا۔ مٹی سے جڑا ہوا، ماضی اور اس کی روایات سے چمٹاہوا۔ ہم لوگ باباجی کے لئے آریائی ثابت ہوئے کہ انہیں خانپور سے دھکیلتے ہوئے بالائی پنجاب تک لے آئے لیکن باباجی کے من میں جودنیا آباد تھی وہ ویسے ہی آباد رہی۔ خانپور چھوڑنے کے بعد وہ کیسٹ پلیئر پر اکثر یہ گانا سناکرتے ’’چل اُڑجارے پنچھی کہ اب یہ د یس ہوابیگانہ‘‘۔ گانا سن کر اداس ہوجاتے۔ مگر کیسٹ پلیئر کے مقابلے میں گراموفون مشین کی آواز انہیں زیادہ فطری لگتی رہی۔ وہ جدید ٹیکنالوجی سے کبھی مرعوب نہ ہوئے۔ حالانکہ گراموفون مشین اسی جدید ٹیکنالوجی کی ابتدائی صورت تھی، مگر میرا خیال ہے باباجی اس معاملے کو کسی ا ور زاویے سے دیکھتے اور سوچتے تھے۔۔ کبھی کبھی ایسے لگتاہے جیسے باباجی نے جو دنیا اپنے من میں آباد کررکھی تھی وہ دنیا تو میرے من میں بھی آباد ہے۔ اور اب تو باباجی کی بہت سی ایسی باتیں بامعنی لگنے لگی ہیں جو ان کی زندگی میں بے معنی لگتی تھیں۔
۔۔۔۔ باباجی ایک اچھے دراوڑ کی طرح مٹی سے محبت بھی کرتے تھے اور موت سے خائف بھی رہتے تھے۔ موت کاکوئی قصّہ کبھی ہم لے بیٹھتے تو باباجی ناراض ہوجاتے اور کہتے موضوع تبدیل کرو۔ ہم انہیں تنگ کرنے کے لئے کہتے باباجی جب ہر کسی نے ایک نہ ایک دن مرناہے تو پھر موت سے ڈرکیسا۔۔ پہلے باباجی کچھ گھبراتے پھر جی کڑاکرکے کہتے میں پہلوان ہوں آسانی سے جان نہیں دوں گا۔۔ لگتاہے فرشتۂ اجل کو بھی باباجی کے خوف پر رحم آگیا ہوگا کیونکہ موت ان کی طرف ایسے آئی کہ نہ انہیں پتہ چل سکا،نہ ہمیں پتہ چل سکا۔ بازار سے گھوم پھر کر، اپنے شاگردوں سے مل کر آئے، گھر کے صحن سے برآمدے تک پہنچے اور چلتے چلتے ہی جان دیدی۔۔ میرے داداجی کے بڑے بیٹے قریشی غلام حسین۔۔میرے اباجی کے بڑے بھائی،ہم سب کے تایاجی فوت ہوگئے۔ مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ دونوں ایک ساتھ کھوگئے۔
باباجی کی زندگی میں ہی میراایک افسانہ ’’دھندکاسفر‘‘۔ نگارپاکستان کراچی میں چھپاتھا۔ اس افسانے میں باباجی اور میرے تعلق سے ایک واقعہ بھی درج تھاجو افسانہ نہیں حقیقت ہے۔
وہ حقیقت اپنے افسانے سے نقل کرتاہوں۔
۔۔۔۔(آپی اور میں)’’جب ہم دونوں چار سال اور تین سال کے تھے، تایاجی ہمارے ہاں آئے تھے، پھر تھوڑی دیر کے لئے کہیں باہر چلے گئے تو آپی نے اور میں نے مشترکہ طورپرسوچاکہ ہمارے تایاجی گم ہوگئے ہیں اور پھر صلاح کی کہ ہم دونوں چل کر انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم بڑی خاموشی سے گھر سے نکل آئے۔ قریبی بازار تک آئے پھر پتہ نہیں کیا ہوا، راستے گم ہونے لگے اور تایاجی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم خود گھر کا راستہ بھول گئے۔ نہ تایاجی ملے ،نہ گھر کاراستہ۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ہم دونوں نے رونا شروع کردیا۔ کسی شریف دوکاندار نے ہمیں اپنی دوکان پر بٹھالیااور ڈھیر ساری مٹھائی بھی ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہم نے مٹھائی کھانے کے ساتھ ساتھ رونے کا عمل بھی جاری رکھا تاوقتیکہ تایاجی اور اباجی ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک نہ آگئے۔ تب ہم مارے خوشی کے باقی مٹھائی اٹھانا بھی بھول گئے‘‘
۔۔۔۔اب جبکہ اباجی اور باباجی دونوں اس جہان میں نہیں رہے تو مجھے خود احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ گھر سے زیادہ دور نہ نکل جاؤں اور گھرکاراستہ نہ بھول جاؤں کیونکہ اب اباجی اور باباجی میں سے کوئی بھی مجھے ڈھونڈنے نہیں آئے گا۔ اب اچھے دوکاندار بھی بہت کم ہیں اور اغواکرنے والے زیادہ۔ اسی لئے مجھے ہر قدم سوچ سوچ کر اور پھونک پھونک کراٹھاناہے۔
۔۔۔۔ مجھے یقین ہے مٹی سے محبت رکھنے والے باباجی، جو موت سے بھی ڈرتے تھے، اب موت کے بعد کسی خوف کے بغیر مٹی سے ہم آغوش ہوکر اپنی محبت کو کمال تک پہنچارہے ہوں گے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen